Sabdasajjan

جمعہ مبارک کہنا
ــــــــــــــــــــــــــــــ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

محترم بھائیو اور بہنو !!

آجکل سوشل میڈیا پر کثرت سے جمعہ مبارک کی پوسٹ کی جاتی ہیں، جمعہ یقیناً مبارک دن ہے عبادت کے لحاظ سے ، لیکن جمعہ کی مبارک باد دینے کی کوئی دلیل قرآن وحدیث سے نہیں ملتی، ما سوائے اسکے کہ اس دن کو سب دنوں سے افضل کہا گیا ہے...

ابن قیم رحمہ اللہ نے کہا ( جمعے کے خصوصی فضائل بیان کرتے ہوئے):

تیرہ: یہ عید کا دن ہےجو ہر ہفتے دہرایا جاتا ہے.

زاد المعاد، 1/369

اس طرح مسلمانوں کی 3 عیدیں ہیں۔ عید الفطر اور عید الاضحی، جو سال میں ایک بار آتی ہیں۔ اور جمعہ جو ہر ہفتے میں ایک بار دہرایا جاتا ہے۔

مسلمانوں کا عید الفطر اور عید الاضحی کے مواقع پر ایک دوسرے کو مبارک باد دینا صحابہ (ر۔ض) سے روایت ہے۔

جہاں تک جمعے کے دن ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کا تعلق ہے، یہ ثابت نہیں ہے۔کیونکہ حقیقت میں جمعہ عید ہے یہ صحابہ (ر۔ض) جانتے تھے، اور وہ اس کے فضائل کے بارے میں ہم سے زیادہ علم رکھتےتھے،اور وہ اِس کا احترام کرتے تھے۔ مگر ایسی کوئی روایت نہیں ہے کہ جس سے ثابت ہو، کہ وہ ایک دوسرے کو جمعے کی مبارکباد دیتے تھے۔ اور تمام نیکی ان کی پیروی میں ہے (اللہ ان سے راضی ہو )

الشیخ صالح بن الفوزان سے پوچھا گیا:

ہر جمعہ کو ٹیکسٹ پیغامات بھیجنا اوراس جملے پر اختتام کرنا "جمعہ مبارک" ،کے بارے میں کیا حکم ہے؟

انہوں نے جواب دیا:

ابتدائی نسل جمعہ کو ایک دوسرے کو مبارک بادنہیں دیتی تھی تو ہمیں وہ متعارف نہیں کرانا چاہیے جو انہوں نے نہیں کیا۔
( انتہی )

اسی طرح کا ایک فتوی شیخ سلیمان رحمہ الماجد  کی طرف سے جاری کیا گیا تھا جب انہوں نے کہا:

ہم نہیں سوچتے کہ اس طرح ایک دوسرے کو جمعہ مبارک کہنا درست ہے، کیونکہ یہ دعاؤں اور ذکر میں آتا ہے، جس کی بنیاد (قرآن/سنت) پر ہونی چاہیے۔ کیونکہ یہ خالصتا عبادت کا معاملہ ہے۔ اوراگر یہ اچھا ہے، تو نبی (صلی اللہ اللہ کی صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کے صحابہ (اللہ ان سے راضی ہو ) نے ہم سے پہلے کیا ہوتا۔

اگر کوئی بھی یہ مشورہ دیتا ہے کہ اِس کی اجازت ہےتو اِس کا مطلب ہے کہ ہمیں پنجگانہ نماز اور دوسری عبادات کے بعد بھی دعا اور مبارکباد دینی چاہیے۔ اور ابتدائی نسلوں نے اِن مواقع پر دعائیں نہیں دی تھی۔
( انتہی )

لہٰذا بجائے اسکے کہ ہم جمعہ کی مبارک باد دیں ، جسکا کوئی ثواب نہیں ، کیوں نہ ہم وہ کام جمعہ کے روز کریں جنکے کرنے سے اللہ بھی راضی ہو اور اعمال نامہ بھی بھاری ہو اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی عمل ہو۔

مثلاََ

1- جمعہ کے روز غسل کا اہتمام کرنا۔
2- سورہ کہف کی تلاوت
3- درود شریف کثرت سے پڑھنا
4- خوشبو لگانا
5- مسجد میں سب سے پہلے پہنچ کر اونٹ جتنی قربانی کا ثواب حاصل کرنا اور امام کے قریب بیٹھ کر خطبہ سننا۔
6- مسواک کرنا گو کہ یہ جمعہ کے لئے خاص نہیں اسکا اہتمام ہر روز بلکہ ہر نماز سے پہلے کرنا چاہیے ۔
7- امام کا خطبہ خاموشی سے سننا۔
8- دعاؤں کی کثرت کرنا۔

یہ تھی وہ مختصر تفصیل جس سے کم و بیش ہر بندہ واقف ہوگا تو کیا ان کاموں سے بھی بڑھ کر ہےجمعہ کی مبارک باد دینا؟؟؟

پیارے بھائیو اور بھنو! اللہ سبحانہ و تعالٰی آپکے درجات بلند فرمائے اس فیس بک کی بدعت کو چھوڑ کر اللہ کو راضی کرنے والے کام کریں ۔

اللہ سبحانہ و تعالٰی آپ کو اور ہم سب کو صحیح اور خالص دین پر چلنے اور عمل کرنے والا بنائے ۔ آمین یارب العالمین

تبصرے

  1. خواجہ سرا عورت ہے یا مرد؟ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ کا فیصلہ دیکھئے!
    ایک شخص نے ایک خنثیٰ سے شادی کی اور مہر میں اس شخص نے اپنی بیوی (خنثیٰ) کو ایک لونڈی دی‘ وہ خنثیٰ اس قسم کا تھا کہ اس کا فرج‘ مردوں اور عورتوں دونوں قسم کا تھا‘اس شخص نے اپنی بیوی (خنثیٰ) کے ساتھ جماع کیا تو اس سے ایک لڑکا تولد ہوا اور جب اس خنثیٰ نے اپنی لونڈی کے ساتھ جماع کیا تو اس سے بھی ایک لڑکا پیدا ہوا‘ یہ بات مشہور ہوگئی اور معاملہ امیر المؤمنین سیدنا حضرت علی المرتضیٰ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ نے خنثیٰ مشکل سے سوال کیا تو اس نے بتایا کہ اس کا فرج عورتوں والا بھی ہے‘ کہ اس سے ماہواری بھی آتی ہے اور مردوں والا بھی ہے کہ اس سے خروج منی بھی ہوتا ہے. حضرت علی  نے اپنے دونوں غلاموں برق اور قنبر کو بلایا اور ان کو حکم دیا کہ وہ خنثیٰ مشکل کی دونوں طرف والی پسلیاں شمار کریں‘اگر بائیں جانب کی ایک پسلی دائیں جانب کم ہو تو پھر اس خنثیٰ مشکل کو مرد سمجھا جائے گا‘ ورنہ عورت‘ وہ اسی طرح ثابت ہوا‘ تو حضرت علی  نے اس کے مرد ہونے کا فیصلہ صادر فرمایا اور اس کے خاوند اور اس کے درمیان تفریق کردی‘ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اکیلا پیدا فرمایا اور جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام پر احسان کا ارادہ فرمایا کہ اس کا جوڑ پیدا فرمائے تاکہ ان میں سے ہرایک اپنے جوڑے سے سکون حاصل کرے‘ جب حضرت آدم علیہ السلام سو گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی بائیں جانب سے اماں حضرت حوا کو پیدا فرمایا‘ جب بیدار ہوئے تو ان کی بائیں جانب ایک حسین وجمیل عورت بیٹھی ہوئی تھی.تو اس لئے مرد کی بائیں جانب کی پسلی عورت سے کم ہوتی ہے اور عورت کی دونوں جانب کی پسلیاں برابر ہوتی ہے‘ کل پسلیوں کی تعداد چوبیس ہے‘ بارہ دائیں جانب اور بارہ بائیں جانب ہوتی ہیں جبکہ مرد کی دائیں جانب بارہ اور بائیں جانب گیارہ ہوتی ہیں‘ تو مرد کی کل پسلیاں چوبیس کی بجائے تئیس ہوتی ہیں‘ اس حالت کے اعتبار سے عورت کو ”ضلع اعوج“ کہا جاتاہے‘ اور حدیث شریف میں تصریح ہے کہ عورت ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی ہے‘ اگر تو اس کو سیدھا کرنا چاہے تو یہ ٹوٹ جائے گی‘ اس لئے اس کو اپنی حالت پر چھوڑ کر اس سے نفع اٹھائیں .

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

ڈیلی نیوز