یہ ایک غیرت مند مسلمان 29 سالہ ابراہیم (ابو ثریا) جو غزہ سے تعلق رکھتا تھا اور جو کہ ایک مچھیرا تھا جو بعد فجر اپنی چھوٹی سی کشتی پر نکلتا اور دیر تک مچھلیاں پکڑتا رہتا۔ ماہی گیری سے وہ اپنے گھر کے 11 افراد کا رزق کمایا کرتا تھا ...
محترم دوستو! ابو ثریا نے فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کو ایک دن کیلئے بھی تسلیم نہیں کیا۔ وہ بہت فخر سے اپنی کشتی پر فلسطین کا پرچم لہراتا اور سمندر میں اسرائیلی بحریہ کی کشتیووں کو دیکھ کر "فلسطین ہمارا ہے" کے نعرے بلند کرتا۔ ماہی گیری سے فارغ ہو کر وہ حماس کے رفاہی اسپتال میں کام کرتا تھا ...
27 دسمبر 2008 کو جب اسرائیلی فضائیہ نے غزہ پر بھرپور بمباری کا آغاز کیا اور بارود کی یہ بارش لگاتار 22 دن یعنی 18 جنوری 2009 تک جاری رہی۔ اس دوران پناہ گزینون کے ایک کیمپ پر بمباری سے ابو ثریا شدید زخمی ہو گیا اور اسکے دونوں پیر کاٹ دئے گئے، ایک گردہ ناکارہ اور اسکی ایک آنکھ پھوٹ گئی۔ یہ آزمائش تھی تو کمر توڑ اور اعصاب شکن، لیکن ہسپتال سے فارغ ہوتے ہی ابراہیم اپنے رب کا شکر ادا کرتا تلاشِ رزق میں نکل کھڑا ہوا۔ معذوری کی وجہ سے ماہی گیری تو ممکن نہ تھی چنانچہ اس نے گاڑیاں دھو کر اپنا اور اہل خانہ کا پیٹ پالنا شروع کیا ...
شدید بمباری سے آبنوشی و آبپاشی کے سارے ذخائر تباہ ہو چکے تھے اور پانی کیلئے لمبی قطار لگتی ہے۔ ابو ثریا بالٹی، اسفنج اور صفائی کا سامان اپنے وہیل چئر پر لے کر فجر کے بعد نکلتا اور اپنی بالٹی پانی سے بھر کر سڑک کے کنارے گاڑیاں صاف کرنے کا کام کرتا۔ اگر کوئی شخص رحم کھا کر اسے پیسہ دیتا وہ ابو ثریا شکریہ ادا کرتے ہوئے وہ پیسے اس شخص کو یہ کہتے ہوئے لوٹا دیتا کہ :
" میں نہ معذور ہوں، اور نہ نادار و بے گھر، میں ایک صحت مند مزدور ہوں اور رزق حلال کما رہا ہوں ... "
مکرم قارئین کرام اس ناچیز و خاکسار فرحان کی ناقص معلومات کہ مطابق تلاشِ رزقِ حلال کے ساتھ ابو ثریا حماس کے جلوسوں اور مظاہروں میں بھی باقاعدگی سے شرکت کرتا تھا۔ وہ کٹے ہوئے پیروں کے ساتھ بجلی کے کھمبوں پر چڑھ کر فلسطین کے پرچم باندھتا اور جلسوں سے دوران کھمبوں کے اوپر سے زور دار نعرے لگواتا تھا ...
صدر ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے کے خلاف وہ سراپا احتجاج بن گیا۔ ابو ثریا ہر احتجاجی جلوس کے آگے آگے رہتا۔ وہ اپنی وہیل چیر چلاتا ہوا اسرائیلی سپاہیوں کے بالکل سامنے پہنچ کر عبرانی و عربی میں بلا خوف و خطر کہتا :
"تم کچھ کر لو، ہم ہار ماننے والے نہیں۔ تم کو ایک نہ ایک دن ہمارا علاقہ خالی کرنا ہوگا ... "
پیارے قارئین کرام اللہ کا کرنا ایسا ہوا کے گزشتہ یوم جمعہ کو نماذ کے بعد غزہ میں زبردست مظاہرہ ہوا جس میں ابو ثریا سب سے آگے تھا۔ وہ نعرے بازی کے ساتھ اپنے ساتھیوں کا حوصلہ بڑھا رہا تھا کہ اسرائیلی فوج نے اسے تاک کر نشانہ بنایا اور ایک گولی اس کے سر کو پاش پاش کر گئی لیکن اس کے سر سے آزادی کا سودا ختم نہ ہوا کہ وہ دم توڑتے ہوئے بھی کلمے کے ساتھ :
" القدس لنا "
یعنی " القدس ہمارا کا ورد کر رہا تھا ..."
یہ خبر اس خاکسار تک مغربی میڈیا سے پہنچی ہے اور رائٹر، سی این این، اے بی سی، س بی ایس حتیٰ کہ انتہائی متعصب فاکس پر بھی الفاظ کے معمولی فرق سے یہ خبر ایسے ہی بیان ہوئی ہے جیسے اس کم فہم فرحان نے آپ تک پہنچانے کی سعادت حاصل کی ہے۔ لیکن اب تک نہ تو اقوام متحدہ نے، اور نہ ہی انسانی حقوق کے کسی ادارے نے اسکا نوٹس لیا ہے کہ ایک معذور شخص کو نشانہ لیکر اسکے سر پر گولی مارنا کہاں کا انصاف ہے ...
اللہ تعالٰی ان وقت کے فرعونوں کو نیست و نابود فرماتے ہوئے میرے بیت المقدس و پاک فلسطین کو ان کے ناپاک عزائم اور اجسام سے پاک فرمائے آمین ثم آمیــــــــــــــن یارب العالمین ...
اور ہاں!!!
اگر ممکن ہو تو اس تحریر کو شئیر کر کے شہید ابو ثریا کو خراج تحسین پیش کر دیجئے گا اور ممکن ہے کہ آپ کا ایک شئیر اس ظلم کی بازگشت کو مذکورہ حکام بالا تک پہنچانے میں بھی مدد گار ثابت ہو ... (ان شاءاللہ تعالٰی)
محترم دوستو! ابو ثریا نے فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کو ایک دن کیلئے بھی تسلیم نہیں کیا۔ وہ بہت فخر سے اپنی کشتی پر فلسطین کا پرچم لہراتا اور سمندر میں اسرائیلی بحریہ کی کشتیووں کو دیکھ کر "فلسطین ہمارا ہے" کے نعرے بلند کرتا۔ ماہی گیری سے فارغ ہو کر وہ حماس کے رفاہی اسپتال میں کام کرتا تھا ...
27 دسمبر 2008 کو جب اسرائیلی فضائیہ نے غزہ پر بھرپور بمباری کا آغاز کیا اور بارود کی یہ بارش لگاتار 22 دن یعنی 18 جنوری 2009 تک جاری رہی۔ اس دوران پناہ گزینون کے ایک کیمپ پر بمباری سے ابو ثریا شدید زخمی ہو گیا اور اسکے دونوں پیر کاٹ دئے گئے، ایک گردہ ناکارہ اور اسکی ایک آنکھ پھوٹ گئی۔ یہ آزمائش تھی تو کمر توڑ اور اعصاب شکن، لیکن ہسپتال سے فارغ ہوتے ہی ابراہیم اپنے رب کا شکر ادا کرتا تلاشِ رزق میں نکل کھڑا ہوا۔ معذوری کی وجہ سے ماہی گیری تو ممکن نہ تھی چنانچہ اس نے گاڑیاں دھو کر اپنا اور اہل خانہ کا پیٹ پالنا شروع کیا ...
شدید بمباری سے آبنوشی و آبپاشی کے سارے ذخائر تباہ ہو چکے تھے اور پانی کیلئے لمبی قطار لگتی ہے۔ ابو ثریا بالٹی، اسفنج اور صفائی کا سامان اپنے وہیل چئر پر لے کر فجر کے بعد نکلتا اور اپنی بالٹی پانی سے بھر کر سڑک کے کنارے گاڑیاں صاف کرنے کا کام کرتا۔ اگر کوئی شخص رحم کھا کر اسے پیسہ دیتا وہ ابو ثریا شکریہ ادا کرتے ہوئے وہ پیسے اس شخص کو یہ کہتے ہوئے لوٹا دیتا کہ :
" میں نہ معذور ہوں، اور نہ نادار و بے گھر، میں ایک صحت مند مزدور ہوں اور رزق حلال کما رہا ہوں ... "
مکرم قارئین کرام اس ناچیز و خاکسار فرحان کی ناقص معلومات کہ مطابق تلاشِ رزقِ حلال کے ساتھ ابو ثریا حماس کے جلوسوں اور مظاہروں میں بھی باقاعدگی سے شرکت کرتا تھا۔ وہ کٹے ہوئے پیروں کے ساتھ بجلی کے کھمبوں پر چڑھ کر فلسطین کے پرچم باندھتا اور جلسوں سے دوران کھمبوں کے اوپر سے زور دار نعرے لگواتا تھا ...
صدر ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے کے خلاف وہ سراپا احتجاج بن گیا۔ ابو ثریا ہر احتجاجی جلوس کے آگے آگے رہتا۔ وہ اپنی وہیل چیر چلاتا ہوا اسرائیلی سپاہیوں کے بالکل سامنے پہنچ کر عبرانی و عربی میں بلا خوف و خطر کہتا :
"تم کچھ کر لو، ہم ہار ماننے والے نہیں۔ تم کو ایک نہ ایک دن ہمارا علاقہ خالی کرنا ہوگا ... "
پیارے قارئین کرام اللہ کا کرنا ایسا ہوا کے گزشتہ یوم جمعہ کو نماذ کے بعد غزہ میں زبردست مظاہرہ ہوا جس میں ابو ثریا سب سے آگے تھا۔ وہ نعرے بازی کے ساتھ اپنے ساتھیوں کا حوصلہ بڑھا رہا تھا کہ اسرائیلی فوج نے اسے تاک کر نشانہ بنایا اور ایک گولی اس کے سر کو پاش پاش کر گئی لیکن اس کے سر سے آزادی کا سودا ختم نہ ہوا کہ وہ دم توڑتے ہوئے بھی کلمے کے ساتھ :
" القدس لنا "
یعنی " القدس ہمارا کا ورد کر رہا تھا ..."
یہ خبر اس خاکسار تک مغربی میڈیا سے پہنچی ہے اور رائٹر، سی این این، اے بی سی، س بی ایس حتیٰ کہ انتہائی متعصب فاکس پر بھی الفاظ کے معمولی فرق سے یہ خبر ایسے ہی بیان ہوئی ہے جیسے اس کم فہم فرحان نے آپ تک پہنچانے کی سعادت حاصل کی ہے۔ لیکن اب تک نہ تو اقوام متحدہ نے، اور نہ ہی انسانی حقوق کے کسی ادارے نے اسکا نوٹس لیا ہے کہ ایک معذور شخص کو نشانہ لیکر اسکے سر پر گولی مارنا کہاں کا انصاف ہے ...
اللہ تعالٰی ان وقت کے فرعونوں کو نیست و نابود فرماتے ہوئے میرے بیت المقدس و پاک فلسطین کو ان کے ناپاک عزائم اور اجسام سے پاک فرمائے آمین ثم آمیــــــــــــــن یارب العالمین ...
اور ہاں!!!
اگر ممکن ہو تو اس تحریر کو شئیر کر کے شہید ابو ثریا کو خراج تحسین پیش کر دیجئے گا اور ممکن ہے کہ آپ کا ایک شئیر اس ظلم کی بازگشت کو مذکورہ حکام بالا تک پہنچانے میں بھی مدد گار ثابت ہو ... (ان شاءاللہ تعالٰی)

تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں