اشاعتیں

تصویر
رخصتی ہونے سے پہلے سسر اس کے پاس آیا اور کہنے لگا بیٹا ہماری بیٹی کو خوش رکھنااا!!!!! لفظ خوش جیسے بجلی بن کر گرا ہو اس پہ!!! وہ سوچنے لگا جیسے اس سارے مجمعے کے سامنے چلا کر کہے کیسی خوشی کونسی خوشی!!!! خوشیوں کے لئے آپ نے کچھ چھوڑا ہے کیا!!!! ایک متوسط طبقے کے نوجوان سے چھ تولے سونا، ڈیڑھ لاکھ مہر، بڑی بارات کا مطالبہ گاڑیوں کے خرچے۔۔ ڈیڑھ لاکھ دلہن کے کپڑے۔۔۔ ایک دن کا لہنگا جو دوسرے دن پہنا نہیں جا سکتا تیس ہزار کا سر سے پیر تک اس کا جسم قرضے میں ڈوبا شادی جیسے مقدس اور خوشی کے موقع پہ ہرآن انہی سوچوں میں غرق زہنی الجھاؤ میں گھرا۔۔ اندر ہی اندر کڑھن کہاں سے دے گا وہ یہ سب!!! ایک مہینے سے وہ ذلیل ہو رہا دوست احباب کے توسط سے کبھی زیور ادھار کبھی کپڑے، کبھی شادی کے دن کھانے کا سامان۔۔۔ جس دن ماں جی نے چھ تولے سونے کا کہا کہ وہ کہ رہے وہ تو اسی دن مکر جانا چاہتا تھا لیکن ماں جی کی آنکھوں میں اس کی خوشیوں کی چمک، بہو کا سہانا خواب آہ سب نے تو اسے بے بس کر دیا تھا حالانکہ ابھی قرض لیے کچھ دن ہوئے شادی ابھی باقی لیکن دکانداروں کی نظریں اس پہ کہ کب ادھار کے پیسے دے گا باز...

بےشک سبحان اللہ

تصویر

خوب صورت منزل

تصویر
تصویر
تصویر
تصویر
یہ ایک غیرت مند مسلمان 29 سالہ ابراہیم (ابو ثریا) جو غزہ سے تعلق رکھتا تھا اور جو کہ ایک مچھیرا تھا جو بعد فجر اپنی چھوٹی سی کشتی پر نکلتا اور دیر تک مچھلیاں پکڑتا رہتا۔ ماہی گیری سے وہ اپنے گھر کے 11 افراد کا رزق کمایا کرتا تھا ... محترم دوستو! ابو ثریا نے فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کو ایک دن کیلئے بھی تسلیم نہیں کیا۔ وہ بہت فخر سے اپنی کشتی پر فلسطین کا پرچم لہراتا اور سمندر میں اسرائیلی بحریہ کی کشتیووں کو دیکھ کر "فلسطین ہمارا ہے" کے نعرے بلند کرتا۔ ماہی گیری سے فارغ ہو کر وہ حماس کے رفاہی اسپتال میں کام کرتا تھا ... 27 دسمبر 2008 کو جب اسرائیلی فضائیہ نے غزہ پر بھرپور بمباری کا آغاز کیا اور بارود کی یہ بارش لگاتار 22 دن یعنی 18 جنوری 2009 تک جاری رہی۔ اس دوران پناہ گزینون کے ایک کیمپ پر بمباری سے ابو ثریا شدید زخمی ہو گیا اور اسکے دونوں پیر کاٹ دئے گئے، ایک گردہ ناکارہ اور اسکی ایک آنکھ پھوٹ گئی۔ یہ آزمائش تھی تو کمر توڑ اور اعصاب شکن، لیکن ہسپتال سے فارغ ہوتے ہی ابراہیم اپنے رب کا شکر ادا کرتا تلاشِ رزق میں نکل کھڑا ہوا۔ معذوری کی وجہ سے ماہی گیری تو ممکن نہ تھی چ...
تصویر
مدد دو طرح کی ہوتی ہے ۔ ایک مدد سے شرک ثابت نہیں ہوتا جبکہ دوسری قسم کی مدد سراسر شرک ہے ۔ اس کو ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کریں : ایک ڈوبتا ہوا شخص جب پاس والے کسی دوسرے شخص سے مدد مانگتا ہے تو وہ شرک نہیں کر رہا ہوتا۔ کیونکہ وہ اسباب کے تحت مدد مانگ رہا ہے۔ اور ایسی مدد مانگنے کا ثبوت قرآن سے بھی ملتا ہے۔ جیسے درج ذیل آیات : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کہنے لگے اللہ تعالیٰ کی راہ میں میری مدد کرنے والا کون کون ہے ؟ (سورہ 3 ، آیت : 52) تمہارے پاس جو رسول آئے تو تمہارے لیے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے ۔ (سورہ 3 ، آیت : 81) نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو (سورہ 5 ، آیت : 2) کیونکہ اس مدد کے مانگنے میں عقیدہ شامل نہیں ہوتا۔ کوئی غیر مسلم ہو ، یا کوئی اللہ پر یقین رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو ۔۔۔ سب ایسی مدد مانگتے ہی ہیں ۔ اور کوئی بھی انسان چاہے وہ نبی ہو، رسول ہو یا بہت بڑا ولی اللہ ہی کیوں نہ ہو، اس کو کسی نہ کسی درجے میں دوسرے انسانوں کی مدد چاہئے ہی ہوتی ہے۔ اگر قرآن کی آیات میں ہمیں یہ سمجھا یاجا رہا ہے کہ ایسی مدد بھی اللہ ہی سے مانگو او...
تصویر
مجموعی طور پر تمام مسلم امہ کی پستی، بے بسی، بے حسی اور ذلت کا اس سے بڑھ کر انکی زندگیوں میں اور کونسا مقام آئے گا کہ مسلمانوں کا قبلہ اول بیت المقدس جسے حضرت ابو عبادہ  اور حضرت خالد بن ولید رض نے حضرت عمر رض کے دور خلافت میں فتح کیا تھا۔آج چودہ صدیوں کے بعد باقاعدہ طور پر یہودیوں کے ذیر تسلط آچکا ہے، اور امریکہ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارلخلافہ تسلیم کر کے اپنا سفارتخانہ بھی یرورشلم منتقل کرنے کا حکم نامہ جاری کیاہے۔ اتنے بڑے سانحے پر مختلف اسلامی ممالک کے متفرق بیان جو سامنے آ سکے ہیں مندرجہ ذیل ہیں۔ امریکہ دنیا میں فساد برپا کرنا چاہتا ہے۔ اس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ یہ ایک  بہت بڑی یہودی سازش ہے یہ گریٹر اسرائیل بننے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ ہمیں یہ فیصلہ قبول نہیں ہے  ( جیسے وہ ہر فیصلہ تجھ سے پوچھ کر کرتے ہیں) اس فیصلے کے خلاف ہم احتجاج کریں گے۔۔ یہ فیصلہ یہودیوں کو جہنم کی طرف لے جائے گا۔ یہ اور اسکے علاوہ بھی بہت سے دلچسپ بیانات پڑھنے کو ملے۔جنہیں پڑھ کر ہنسی بھی آئی اور افسوس بھی۔یعنی کے ساٹھ کے قریب اسلامی ممالک،  او ای سی اور ی...
تصویر
ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺮﺍﺩ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺭﺍﺕ ﺑﮍﯼ ﮔﮭﭩﻦ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺋﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﻧﮧ ﺟﺎﻥ ﺳﮑﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯﺳﮑﯿﻮﺭﭨﯽ ﺍﻧﭽﺎﺭﺝ ﮐﻮ ﺑﻼﯾﺎ _ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺑﮭﯿﺲ ﺑﺪﻝ ﮐﺮ ﻋﻮﺍﻡ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ ﮔﯿﺮﯼ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ، ﺑﻮﻻ ، ﭼﻠﻮ ﮐﭽﮫ ﻭﻗﺖ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺍﺭﺗﮯ ﮨﯿﮟ _ ﺷﮩﺮ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﭘﺮ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﯾﮏ ﺁﺩﻣﯽ گرﺍ ﭘﮍﺍ ﮨﮯ . ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮨﻼ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﻣﺮﺩﮦ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺗﮭﺎ . ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﮐﺮ ﺟﺎﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ . ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯼ ، ﺍﺩﮬﺮ ﺁﺅ ﺑﮭﺎﺋﯽ _ ﻟﻮﮒ ﺟﻤﻊ ﮨﻮ ﮔﮱ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﻮ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﻧﮧ ﺳﮑﮯ . ﭘﻮﭼﮭﺎ : ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ؟_ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﺁﺩﻣﯽ ﻣﺮﺍ ﭘﮍﺍ ﮨﮯ . ﺍﺱ ﮐﻮ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ . ﮐﻮﻥ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﮩﺎﮞ ﮨﯿﮟ . ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﯾﮧ ﺑﮩﺖ ﺑﺮﺍ ﺍﻭﺭ ﮔﻨﺎﮦ ﮔﺎﺭ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮨﮯ _ ﺗﻮ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺮﺍﺩ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﺍﻣﺖ ﻣﺤﻤﺪﯾﮧ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ . ﭼﻠﻮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﭨﮭﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﮯ ﮔﮭﺮ ﻟﮯ ﭼﻠﯿﮟ _ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﯿﺖ ﮔﮭﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﯼ _ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﮐﯽ ﻻﺵ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺗﻮ ﺭﻭﻧﮯ ﻟﮕﯽ . ﻟﻮﮒ ﭼﻠﮯ ﮔﮱ _ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﺎ ﺳﮑﯿﻮﺭﭨﯽ ﺍﻧﭽﺎﺭﺝ ﻭﮨﯿﮟ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﺎ ﺭﻭﻧﺎ ﺳﻨﺘﮯ ﺭﮨﮯ . ﻭﮦ کہہ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ، ﻣﯿﮟ ﮔﻮﺍﮨﯽ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﻮﮞ ، ﺑﯿﺸﮏ ﺗﻮ ﺍﻟﻠّﻪ ﮐﺎ ﻭﻟﯽ ﮨﮯ . ﺍﻭﺭ ﻧﯿﮏ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﮯ . ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺮﺍﺩ ...